اسلام آباد/./کے ٹو پر لاپتا پاکستانی کوہ پیماعلی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نے والد کی موت کی تصدیق کردی۔پاکستانی کوہ پیما محمد علی سد پارہ موسم سرما میں کے ٹو سر کرنے کی مہم جوئی میں مصروف تھے اور اس مہم جوئی میں ان کے ساتھ ان کے بیٹے ساجد سدپارہ سمیت غیر ملکی کوہ پیما بھی تھے۔5 فروری کو ساجد سدپارہ آکسیجن سلینڈر میں مسئلے کے باعث واپس بیس کیمپ آگئے تھے لیکن ان کے والد محمد علی سدپارہ بیس کیمپ سے واپس نہیں لوٹے تھے۔محمد علی سدپارہ اور غیر ملکی کوہ پیما کی تلاش کے لیے پاک فوج اور دیگر اداروں نے ریسکیو آپریشن بھی کیا لیکن کوہ پیماؤں کا کچھ پتا نہیں چل سکا۔ گلگت بلتستان کے وزیر سیاحت راجہ ناصر خان اور علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نے پریس کانفرنس کی جس میں ساجد سدپارہ نے اپنے والد کوہ پیما محمد علی سدپارہ کی موت کی تصدیق کی۔
ساجد سدپارہ کا کہنا تھا کہ وہ اپنے والد کا مشن جاری رکھیں گے اور ان کا خواب پورا کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ریسکیو آپریشن پر وزیراعظم عمران خان، آرمی چیف جنرل قمر جاویدباجوہ اور عسکری ایوی ایشن کے بہادر پائلٹس کا بھی مشکور ہوں۔خیال رہے کہمپاکستان کے محمد علی سدپارہ، چلی کے جان پابلو مہر اور آئس لینڈ کے جان اسنوری موسم سرما کے دوران کے-2 کی چوٹی سر کرنے کے مشن کے دوران 4 اور 5 فروری کی درمیانی شب لاپتا ہوگئے تھے۔تینوں کوہ پیماؤں کو آخری مرتبہ کے-2 کے مشکل ترین مقام بوٹل نیک پر دیکھا گیا تھا، جس کے بعد سے موسم کی خراب صورتحال ان کی تلاش اور ریسکیو کی کوششوں میں مسلسل رکاوٹ بنی رہی۔محمد علی سد پارہ کے بیٹے ساجد سد پارہ بھی ‘بوٹل نیک’ (کے ٹو کا خطرناک ترین مقام) کے نام سے مشہور مقام تک ان تینوں کوہ پیماؤں کے ہمراہ تھے لیکن آکسیجن ریگولیٹر میں مسائل کے سبب کیمپ 3 پر واپس آئے تھے۔تینوں کوہ پیماؤں کا جمعے کی رات کو بیس کیمپ سے رابطہ منقطع ہوا اور ان کی ٹیم کو جب ان کی جانب سے رپورٹ موصول ہونا بند ہوگئی تو ہفتے کو وہ لاپتا قرار پائے تھے۔یہاں یہ بات مدنظر رہے کہ محمد علی سدپارہ، آئس لینڈ کے جان اسنوری اور چلی کے جان پابلو موہر موسمِ سرما میں کے-ٹو سر کرنے کی دوسری مہم کے دوران لاپتا ہوئے تھے۔اس سے قبل 24 جنوری کو محمد علی سدپارہ، ساجد علی سدپارہ اور جان اسنوری نے کو کے -ٹو سر کرنے کی مہم کا آغاز کیا تھا لیکن 25 جنوری کی دوپہر کو 6 ہزار 831 میٹرز پر پہنچنے کے بعد موسم کی خراب صورتحال کی وجہ سے انہوں نے مہم چھوڑ کر بیس کیمپ کی جانب واپسی کا سفر شروع کیا تھا اور فروری میں دوبارہ کے-ٹو سر کرنے کی مہم کا اعلان کیا تھا۔
This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish.AcceptRead More
Privacy & Cookies Policy
Privacy Overview
This website uses cookies to improve your experience while you navigate through the website. Out of these, the cookies that are categorized as necessary are stored on your browser as they are essential for the working of basic functionalities of the website. We also use third-party cookies that help us analyze and understand how you use this website. These cookies will be stored in your browser only with your consent. You also have the option to opt-out of these cookies. But opting out of some of these cookies may affect your browsing experience.
Necessary cookies are absolutely essential for the website to function properly. This category only includes cookies that ensures basic functionalities and security features of the website. These cookies do not store any personal information.
Any cookies that may not be particularly necessary for the website to function and is used specifically to collect user personal data via analytics, ads, other embedded contents are termed as non-necessary cookies. It is mandatory to procure user consent prior to running these cookies on your website.